وبلاگ

توضیح وبلاگ من

پژوهش های کارشناسی ارشد درباره : ترجمه و تحقیق جلد چهارم کتاب « اصول فلسفه و ...

 
تاریخ: 04-08-00
نویسنده: فاطمه کرمانی

پس اگر کوئی موجود اس حد تک پهنچ جائے که تمام کمالات اور صورتیں اس کے اندر پائی جائیں تو اس میں کسی بھی جدید حالت کے قبول کرنے کےلئے استعداد نهیں هوگی۔ اس کے برعکس اگر کوئی موجود اس حد تک پهنچ جائے که اس میں بالفعل(حال) کوئی بھی صورت اور حالت موجود نه هو تو اس کے اندر تمام چیزوں کی صورتوں کو قبول کرنے کی استعداد موجود هوگی۔
“هیولای اولی” (ابتدائی ماده ) وه موجود هے جو اپنی ذات میں کسی قسم کی فعلیت نهیں رکھتا اسی لئے اس میں تمام چیزوں کے هونے کی استعداد موجود هے یعنی اپنی ذات میں کسی بھی صورت اور حالت کو قبول کرنے سے انکار اور امتناع نهیں کرتا۔ “هیولای اولی” کبھی بھی بغیر صورت کے نهیں هے اور صورتیں ایک دوسرے کے ساتھ ضدیت رکھتیں هیں یعنی هر صورت صرف بعض صورتوں کے ساتھ مانعیت اور ضدیت نهیں رکھتی باقی تمام صورتوں کے ساتھ مانعیت رکھتی هے۔ پس دیکھنے میں آتا هے که بعض مادے صرف ایک خاص صورت کی استعداد رکھتے هیں جس کی وجہ سے گمان کیا جاتا هے که یه استعداد ایک وجودی امر هے۔ جبکه یه گمان بے بنیاد اور غلط هے ۔ کسی خاص صورت کی استعداد رکھنے کا معنی یه هے که اس چیز کی موجوده صورت اس کے مادے کو جو هر صورت کی قابلیت رکھتا هے اس خاص صورت کے علاوه باقی صورتوں کے قبول کرنے سے روکتی هے۔ مثلا گندم کے دانے میں گندم کا خوشه بننے کی استعداد موجود هے نه جو ، خرما ، انسان اور دوسری چیزوں کا ۔ اگر هم مطلب کی حقیقت تک پهنچ جائے تو معلوم هوگا که گندم کے دانے کی موجوده صورت اس میں موجود اصلی ماده کو یه اجازت نهیں دیتی که وه جو ، خرما یا انسان بن جائے ؛ یعنی گندم کے دانے کی موجوده صورت ماده اصلی کے اوپر گندم هونے کے علاوه دوسرے تمام راستوں کو بند کرتی هے؛ پس تمام استعدادوں کی بازگشت مانع سے خالی هونا هے ۔
یه جو کها جاتا هے که “هیولائ اولی “ میں بغیر استثنی اور تفاوت کے تمام چیزوں کی استعداد هے اس معنی میں هے که “هیولای اولی” وجود اورتشخص نه رکھنے اور تمام فعلیتوں کے فاقد هونے کی وجه سے کسی بھی چیز کو قبول کرنے سے انکار نهیں کرتا هے۔ اور یه جو کها جاتا هے که گندم کے دانے یا کھجور کی گٹھلی یا انسان کے نطفے میں کسی خاص چیز کی استعداد هے اس معنی میں هے که ان میں سے هر ایک میں صرف ایک خاص صورت کے علاوه باقی تمام صورتوں کی نسبت مانع اور رکاوٹ موجود هے۔
یه نظریه قابل قبول نهیں هے اس نظریے کی بنیاد یه هے که اجسام اپنی انتهائی اورحتمی تحلیل میں دو جز پر تقسیم هوتے هیں ۔ ان میں سے ایک قابلیت کی فعلیت کے سوا کوئی فعلیت نهیں رکھتا هے جسے اصلی ماده اور هیولای اولی کها جاتا هے۔ اور دوسرا جز جسم کی صورت جسمیہ هے جس کی حقیقت طول و عرض (بعد و امتداد) هے۔ ارسطو[۱۷] کا معروف نظریه “پنچ­گانه جواهر” بھی اسی اساس اور بنیاد پر موقوف هے۔ معروف برهان “فصل و وصل” بھی اسی مدعا کو ثابت کرنے کیلئے هے۔
لیکن هم اس عقیدے کو صحیح نهیں سمجھتے هیں ۔همارے عقیدے کے مطابق جسم ماده اور صورت میں تجزیه اور تحلیل نهیں هوتا ، ماده اور صورت جسم کے اجزاء تو هیں؛ لیکن تحلیلی اجزاء هیں نه خارجی اجزاء ؛ اس معنی میں که هر جسم خارج میں دو واقعی جز تک منتهی نهیں هوتا هے که ان میں سے ایک صرف ماده هو جو اپنی ذات میں کسی بھی صورت سے خالی هے اور دوسرا صورت ؛ بلکه جس طرح زمان اور حرکت کے اجزاء اور جسمانی بعد لامتناهی اور بے نهایت چھوٹےاجزاءمیں تقسیم هونے کی قابلیت رکھتے هیں ۔ اسی طرح جوهر جسمانی کی حقیقت بھی قوه اور فعل کی طرف بے نهایت ذهنی تقسیم کی قابلیت رکھتی هے۔جسم کی یه خاصیت اس وجه سے پیدا هوئی هے که حرکت جوهر جسمانی کے وجود کو قوام بخشتی هے۔
جسم کا ماده اور صورت سے مرکب هونے اور نه هونے اور مرکب هونے کے فرض کی بناء پر اس ترکیب کی کیفیت کیاهے؟ آیایه ترکیب اتحادی هے یا انضمامی؟ایک لمبی گفتگو هے جس کے متعلق بهت سارے فلسفی اشکالات اور اعتراضات کئے هیں ۔ لهذا هم اس بحث میں پڑنا نهیں چاهتے هیں۔
لیکن قوه اور استعداد کی اعتباری هونے کا نظریه ، یهاں بحث نسبتا اهمیت کا حامل هے که استعداد یا امکانِ استعدادی ایک وجودی امر یا ایک موجوده حقیقت نهیں هو سکتی هے بلکه ضروری هے که صرف ایک اخذی اور اعتباری مفهوم رکھتی هواس بیان کے ساتھ:
گذشته بیان کی روشنی میں کسی بھی حادث اور جدید وجود کیلئے بغیر استثنی کے پهلے قوه اور استعداد کا هونا ضروری هے۔ لہذاخود قوه اور استعداد ایک موجود یا حادث نهیں هو سکتی کیونکه لازم آتا هے که وه خود بھی اس قانون میں شامل هو یعنی لازم آتا هے که کسی بھی استعداد کے موجود هونے کیلئے پهلے کوئی اور استعداد هو اور وه استعداد بھی اپنے سے پهلے ایک استعداد رکھتی هو اسی طرح یه سلسله بے نهایت چلتا رهے۔ پس اگر انسان موجود هونا چاهے تو ضروری هے که بے نهایت استعداد رکھتا هو۔ ان میں سے ایک خود انسان هونے کی استعداد هے اور اگر وه استعداد امر موجود هو تو لازم آتا هے که اس کے لئے بھی ایک استعداد هو اسی طرح اگر وه استعداد بھی واقعیتِ موجود هو تو ضروری هے که اس کے لئے بھی ایک استعداد هو۔ اس طرح سلسله بڑھتا حائے گا اور کسی نقطے پر اختتام پذیر نهیں هو گا۔ علاوه براین ان استعدادوں میں سے هر ایک کے لئے ایک مخصوص “حامل” کا هونا ضروری هے حالانکه هم بدیہی طورپرجانتے هیں که کوئی بھی موجود مانند انسان اور درخت وغیره بے نهایت استعداد نهیں رکھتا هے۔
پایان نامه - مقاله - پروژه
شیخ اشراق نے ان امور کے اعتباری هونے پر ایک کلی قاعدے کو ذکر کیاهے: “هر وه چیز جس کے موجود هونے سے اس کا وجود تکرار هونا لازم آئے وه اعتباری امر هے ”۔ شیخ اشراق کے عقیدے کے مطابق مثلاً وحدت ایک اعتباری امر هے؛ یعنی وه اشیاء جو وحدت کی صفت کا حامل هیں حقیقت رکھتی هیں لیکن خود وحدت ایک اعتباری اور اخذی امرهے؛ کیونکه اگر وحدت وجود رکھتی هو تو ضروری هے که یا واحد هو یاکثیر؛ اگر وحدت واحد هو یعنی صفت وحدت کا حامل هو تو ضروری هے که اس وحدت کی وحدت بھی موجود هو۔ پس یهاں پر دو وحدت موجود هیں؛ ایک اس مورد نظر شئ کی وحدت دوسری اس شئ کی وحدت کی وحدت ۔ گفتگو اس شئ کی وحدت کی وحدت کی طرف منتقل هوگی وه وحدت بھی همارے فرض کے مطابق موجود اور واحد هے۔ پس وه بھی کوئی وحدت رکھتی هے۔ فرض کی بنا پر هر وحدت وجود رکھتی هے۔ اس وحدت کی وحدت بھی وجود رکھتی هے۔ اسی طرح یه سلسله بے نهایت چلتا رهے گا۔ لیکن اگر فرض کریں که خود وحدت واحد نهیں ہے بلکه کثیر هے تو اشکالات اور اعتراضات میں مزید اضافه هوگا ؛ کیونکه اولاً بدیهی کے خلاف هے ثانیا هر کثیر، چند واحد کا مجموعه هے۔ پس وحدت کے وجود سے چند واحد کا وجود لازم آتا هے ۔ پھر ان واحدوں میں سے هر ایک وحدت رکھتا هے اور هر وحدت کثیر اور چند واحدوں کا مجموعه هے۔ پس ان واحدوں میں سے هر ایک کے وجود سے چند واحد کا وجود لازم آتا هے۔ اسی طرح سلسله بے نهایت چلتا رهے گااور بے نهایت اور لامتناهی سلسلے وجود میں آئیں گے۔پس وحدت ان امور میں سے هے جس کے وجود سے اس کا تکرارهونا لازم آتا هے؛ چونکه اس کا تکرار محال هے پس وحدت کا وجود بھی محال هے۔ پس وحدت ایک اعتباری امر هے۔
شیخ اشراق[۱۸] اسی دلیل کی بنیاد پر وجود کو بھی اعتباری امرگردانتا اور مدعی هے که وجود کا موجود هونےسےهر شئ کے وجود میں بے نهایت تکرار لازم آتا هے جو که محال هے ۔ اب جبکه یه کلی قاعده واضح هوگیا تو کهیں گے که استعداد کا موجود هونا بھی استعدادی وجود کے تکرار کا لازمه هے اور چونکه وجود کا تکرار جیسا که بیان هوا محال هے پس استعداد اور امکان استعدادی بھی موجود نهیں هے اور ایک اعتباری امر هے۔
جواب یه هے که هم شیخ اشراق کے اس کلی قاعده کو اسی کلی شکل میں قبول کریں گے یعنی اگر فرض کریں کسی چیز کے وجود سے اس کا تکرار لازم آئے تو وه چیز حقیقی موجود نهیں هو سکتی لیکن جیسا که صدرالمتالهین نے تحقیق کی هے وجود اور وحدت جیسی چیزوں کے حقیقی هونے سے تکرار لازم نهیں آتا هے۔ شیخ اشراق نے گمان کیا هے که هر موجود کا ماهیات کی سنخ سے هونا ضروری هےیعنی اس کا وجود اپنی ذاتی نهیں هو بلکه غیر کی طرف سے عطا شده هے ۔ حالانکه ممکن هے که کسی چیز کے وجود اور اس کی ذات میں عینیت برقرار هو اور مذکوره اشکال وارد نه هو ۔وجود اور اس کی حالات مانند وحدت، کثرت، تقدم، تاخر، قدم و حدوث اور قوه و فعل کا تعلق بھی اسی سنخ سے هے ۔یه چیزیں موجود هیں اس معنی میں که یا عین حقیقت وجود هیں یا وجود کے مراتب میں سے ایک مرتبه هیں۔ نه اس معنی میں که ان کا تعلق سنخ ماهیت سے هے اور وجود ان پر عارض هوا هو۔
جیساکه مقاله نمبر ۹ میں بیان هوا ماده کسی صورت کے رکھنے کے ساتھ دوباره اسی صورت کو قبول نهیں کرسکتا (تحصیل حاصل محال هے) اس بات کا بیان ضروری هے که یه وجودی نسبت یا صفت ایک مطلوب شکل یا صورت پیدا کرنے تک اپنے وجود کو جاری رکھتی هے اور اس مطلوب شکل و صورت کے حاصل هونے کے بعد اس کا امکان ختم هوجاتا هے؛ کیونکه کسی صورت کے هونے کے ساتھ اس صورت کا طلب اور قبول کرنا معنی نهیں رکھتا ۔
مثلا سیب سیب هونے کے بعد دوباره سیب نهیں بن سکتا مگر یه که موجوده سیب اپنی صورت کو کھو دے اور دوباره ارتقائی حرکت کے ذریعے سیب کی صورت حاصل کرے۔(۱)

قوه اور استعداد کو امر وجودی کهنا اس معنی میں هے که قوه اور استعداد مستعد کے وجودسے خارج نهیں هیں اور ماده کے ایک خاص مرحله اور مرتبه سے اخذ هوتے هیں نه اس معنی میں که استعداد ایک صفت هے جو ماده پر عارض اور اس سےملحق هوتی هے جس طرح رنگ، بو، حالت اورمحاذات (عوارض) جو جسم پر عارض هوتے هیں۔یهاں سے معلوم هوتا هے که قوه اور استعداد کے بارے میں فلاسفرز نے جو بحثیں کی هیں که آیا یه مقوله کیف میں سے هے یا اضافه یا کسی دوسرے مقولے سے اس کا تعلق هے ، کس قدر بے جا اور نادرست هے ؛ کیونکه قوه اور فعلیت مقولات کے باب میں داخل هی نهیں هے تاکه یه بحث پیش آئے ۔ زیاده سے زیاده یه کهہ سکتے هیں که استعداد اور ماده کی نسبت جسم تعلیمی اور جسم طبیعی کےدرمیان موجود نسبت کی مانند هے یعنی مبهم اور لامتعین کی نسبت متعین کےساتھ۔ جیساکه هم جانتے هیں که مبهم اور متعین خارج میں ایک هیں اور ان دونوں کا اختلاف ذهنی اعتبار سے هے اورهر متعین مبهم کا تحلیلی عارض هے نه خارجی عارض لیکن فلاسفرز جب قوه اور استعداد کی ماهیت سے بحث کرتے هیں تو ایسا محسوس هوتا هے گویا وه لوگ عرض خارجی کے بارے میں بحث کررہےهیں۔
(۱) گذشته گفتگو سے ثابت هوا که همیشه هر چیز کےوجود سے پهلے اس کا امکان موجود هوتا هےجس طرح تعین کا وجود متعین کے ضمن میں هوتا هے ۔ اب ضروری هے که هم جان لیں که امکان کب تک اپنے وجود کو دوام دیتا هے۔ آیا اس چیز کے موجود هونے اور فعلیت تک پهنچنے کے بعد بھی امکان اور استعداد باقی رهتی هے یا نهیں؟
هم اس وجودی صفت کو “قوه “اور بعد میں آنے والی وجودی صورت کو “فعل” نام رکھتے هیں۔کبھی ان دو ناموں(قوه اور فعل) کی جگه لفظ امکان اور فعلیت کو بھی بروئے کار لایا جاتا هے، مثلا جب هم کهتے هیں بیچ درخت کی صلاحیت(قوه) اور امکان رکھتا هے اس کا مطلب یه هے که درخت فعلیت تک پهنچنے کے بعد یعنی درخت بننے کے بعد اس میں موجود قوه ختم هوجاتی هے یا امکان، فعلیت میں بدل جاتی هے۔ اسی طرح یه بھی بدیهی هے که درخت کی حتمی شکل معرض وجودمیں آنے کے بعد جس طرح درخت درخت بننے کا امکان ختم هوجاتا هے اسی طرح بیچ کی صورت جس کے همراه درخت بننے کی “قوه”موجود هوتی هےنیز ختم هوجاتی هے۔(۱)

مذکوره بالا سوال کا جواب نفی میں هے کیونکه حقیقت میں کسی چیز کی فعلیت کا آغاز اس کے قوه اور استعداد کا انجام اور اختتام هوتاهے۔ بدیهی هے که اگر فرض کریں که فعلیت میں آنے کے بعد بھی اس فعلیت کی قوه اور استعداد باقی رهے تو لازم آتا هے که استعداد کسی حاصل شده چیز کی استعداد هو اور چونکه حاصل شده چیز کا حاصل کرنا محال هے لهذا اس کے استعداد کا باقی رهنا بھی محال هے۔ پس کسی چیز کے فعلیت تک پهنچنے کے بعد اس کی استعداد اور امکان ختم هوجاتا هے ۔ لیکن کیسے یه امکان ختم هوتا هے ، آیا ایسا هے که ایک موجود ختم هوجائے اور کوئی اور موجود اس کی جگه لے لےیا کچھ اور هے؟ یه ایک ایسا مطلب هے جس کےبارے میں متن میں توضیح دی جائیگی۔
(۱) ایک اور بات جس کا واضح هونا ضروری هے یه هے که جس طرح “فعلیت” میں آنے کے بعد اس کا “امکان”ختم هوجاتا هے، اسی طرح اس کی پهلی صورت (جوامکان کے ساتھ تھی )بھی ختم هوجاتی هے یا نهیں ؟
گذشته بیان سے هم مندرجه ذیل تنائج لے سکتے هیں:
۱ – “قوه” اور “امکان”کے نام سے ایک وجودی نسبت موجود هے ۔[۱۹]

مثلا آیا انسانیت کا امکان جو نطفه میں موجود تھا انسانیت کے فعلیت میں آنے کے بعد ختم هوجاتا هے اسی طرح نطفه کی خاص صورت جو کچھ خاص آثار کا سرچشمه تھی، بھی ختم هوجاتی هے یا نهیں؟البته پهلے والی صورت سے مراد پهلے والی شکل اور هیئت نهیں هے بلکه اس سے مراد ایک خاص فعلیت هے جو اس شئ کے آثار کامنبع، شئ کی ذات کو وجود میں لانے اور دوسری اشیاء سے تشخیص دینے کا باعث بنتی هے۔اس بات میں کسی شک و شبه کی گنجایش نهیں هے که گذشته بعینه (۱۰۰%)آئنده میں موجود نهیں هے۔ مسلماً نطفه جو که انسان بن گیا هے ابھی نطفه کی حالت میں نهیں هے اور اپنے آثار کے کچھ حصے کو کھو چکا هے ۔ انڈا چوزا بننے کے بعد اپنی پهلی حالت اور کچھ آثار کو کھو چکا هے۔اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شک نهیں هے که گذشته ۱۰۰% آئنده میں معدوم نهیں هوتا اور گذشته کا کچھ حصه آئنده میں باقی رهتا هے۔ جو چیز گذشته اور آئنده میں باقی رهتی هے اور مختلف شکلوں کو قبول کرتی هے فلاسفرز کی اصطلاح میں اسے ماده کهتے هیں جو که مختلف صورتوں کی استعداد رکھتا هے۔
– قوه اور امکان کسی فعلیت کا محتاج هے جو انهیں محفوظ رکھ سکے چنانچہ ایسی فعلیت کا تقاضا کرتے

بحث اس میں هے که آیا بعد کی صورت آنے کے بعد پهلی صورت ختم هوجاتی هے یا نهیں؟ اس میں بھی کوئی اختلاف نهیں هے کیونکه بعد والی صورت آنے کے بعد پهلی صورت اپنی شان اور مقام کو بعنوان صورت اور کسی چیز کی حقیقت اور ماهیت کا معرّف هونے کی حیثیت سے محفوظ نهیں رکھ سکتی۔اس کی وجه یه هے که اگر پهلی صورت اپنا پهلے والا مقام محفوظ رکھے تو لازم آتا هے که ایک هی شئ ایک هی وقت میں دو جداگانه ماهیت رکھتی هو۔لیکن یه دیکھنا ضروری هے که آیا پهلی صورت جو که اپنے مقام سے معزول هوتی هے اور بعد کی صورت اس کی جگه لیتی هے کلی طور پر معدوم هوجاتی هے اور جدید صورت مکمل طور پر جدید صورت هے یا صرف اپنے مقام سے معزول هوتی هے لیکن معدوم اور ختم نهیں هوتی بلکه شئ کے مادے کا جز بن جاتی هے؟
یهاں پر دو نظریے هیں: قدماء مانند ابن سینا[۲۰] کا معروف نظریه یه هے که پهلی صورت کلی طور پر معدوم هوجاتی هے۔ مثلا نطفه جب حیوان بن جاتا هے تو اس صورت اور فعلیت کو جو نطفه هونے کا معیار اور ملاک تھا کھودیتاهے اور مکمل طور ایک جدید صورت کو مادے کے لئے عطا کرتا هے۔ جو چیز طبیعت میں رونما هوتی هے “خلع اور لبس”(اتارنا اور پهننا) هے؛ یعنی ماده ایک لباس کو اتار کر دوسرے لباس کو جو پهلے والے لباس سے کامل تر هے پهن لیتا هے ۔
هیں جو ان کی چاهت کے مطابق هو(۱)۔مثلا سیب کےبیچ میں،سیب بننے کی جو قوه اور امکان موجود هے بیچ کی شکل میں محفوظ هے ۔
۳ – هر فعلیت دوسری فعلیت کو اپنے سے دور کر دیتی هے مثلا سیب بننے کے بعد بیچ کی شکل ختم هوجاتی هے۔ اس نتیجے سے دو اور نتیجے بھی لے سکتے هیں :

ماده کے لئے ممکن نهیں هے که ایک لباس کے هوتے هوئے دوسرا لباس پهن لے۔لیکن دوسرا نظریه جس کی صدر المتالهین[۲۱] نے بھی تائید کی هے یه هے که پهلی صورت کلی طور پر معدوم اور ختم نهیں هوتی بلکه صرف اپنے مقام سے معزول هوتی هے اورماده سے ملکر قوه کی شکل اختیار کرتی هے یعنی اصطلاحاًجو چیز طبیعت میں رونما هوتی هے“ خلع و لبس” نهیں هے بلکه “لبس فوق لبس” (ایک لباس کے اوپر دوسرا پهننا)هے کیونکه بنیادی طور پر ممکن نهیں هے که ماده کلی طور پر اپنی صورت کو اتار کر دوسری صورت پهن لے اگرچه زمان کا فاصله بھی نه هو۔مقاله کے متن میں اس مطلب کے بارے میں بعد میں بحث هوگی۔
(۱) یه مطلب گذشته گفتگو سے بخوبی سمجھ سکتے هیں ۔پس اس بات کے ثابت هونے کے بعد که کسی بھی چیز کے وجود سے پهلے اس کا امکان موجود هوتا هے اور ثابت هوا که “قوه “ اور “امکان” ان چیزوں میں سے نهیں هے جو مستقل وجود رکھتے هوں بلکه همیشه کسی دوسری چیز کے لئے ایک صفت کی حیثیت رکھتےهیں۔ پس ضروری هے که دوسری شئ بھی مورد نظر شئ سے پهلے وجود رکھتی هو تاکه اس شئ کے امکان کو حمل کرسکے۔ پس هر چیز مقام و مرتبه اور وجود کے لحاظ سے قوه اور استعداد اسی طرح حامل قوه و استعداد جسے اصطلاح میں ماده کهتے هیں کے بعد هوتی هے؛ جیسے پهلے بیان هوا فلاسفرز کا یه معروف جمله”کل شئ مسبوق بقوه و ماده تحملها” اسی مطلب کو بیان کرتا هے۔
اول: هر خارجی چیز میں ایک فعلیت کے علاوه دیگر فعلیتیں مادے کا جز هے مثلا کرسی کی فعلیت میں صرف کرسی کی صورت اس کی فعلیت هے دیگر فعلیتیں مانند لکڑی ، تخته اور کیل کی فعلیت کرسی کے مادے کا جزو هے نه که یه فعلیتیں کرسی کی فعلیت کے مقابلے میں هیں ۔

جو چیز توجه کا طالب هے وه یه هے که کچھ تعبیریں مانند “حامل”اور “محافظ” همیں گمراه نه کرے اور هم یه گمان نہ کر بیٹھیں که واقعاً خارج میں دو جداگانه چیزیں موجود هیں جو ایک دوسرے میں ضم هوگئی هیں اور ایک نے دوسرے کو حمل کیا هوا هے اور اس کی حفاظت کر رهی هے اور ان میں سے ایک عرض هے دوسرا معروض بلکه جیسا که پهلے بیان هوا ان کے مابین دوگانگی، عقلی اور تحلیلی هے نه عینی اور خارجی جیسا که متن میں آیا هے قوه یا امکان استعدادی حال اور آئنده کے درمیان ایک قسم کی نسبت هے اور هم جانتے هیں که نسبت، طرفینِ نسبت سے جداگانه وجود نهیں رکھتی۔ یهاں سے معلوم هوتا هے که وه بحث جوعام طور پر سابقه ماده کی اثبات کے لئے کی جاتی هے اس بات پر بنا رکھتے هوئے که (امکان، یا جوهر هے یا عرض لیکن جوهر نهیں هوسکتا پس عرض هے) چنانچه کهتے هیں (چونکه امکان استعدادی عرض هے آیا مقوله کیف سے هے یا مقوله اضافه یا کسی اور مقوله سے؟)ان کی یه گفتگو قابل نزاع اور اعتراض هے کیونکہ جیسا که هم نے پهلے بیان کیا استعداد یا امکانِ استعدادی ایک خاص ماده کا تعین کرنا هے اور دقیق لفظوں میں استعداد تعیّن کے لحاظ سےوهی ماده هے۔ استعداد سے مراد ایک واقعیت کا معین ماده هے جو ماده کا بھی مصداق هے اور استعداد کا بھی نه یه که ایک واقعیت دوسرے واقعیت پر عارض هو گئی هو ۔ اس بنا پر مفهوم استعداد باقی تمام فلسفی مفاهیم کی طرح یعنی وجود ، عدم، ضرورت ، امکان… کسی بھی مقوله کے ماتحت نهیں آتا اور مقولات سے خارج هے ۔لیکن اگر عرض کو ان چیزوں سے جو خارج میں عارض هوتی هیں اور ان چیزوں سے جو ذهن میں عارض هوتی هیں عام مراد لیں تو اس طرح کے امور پر بھی صدق کرتی هے؛ لیکن اس صورت میں ضروری هے که عرض کی کوئی اور تعریف کریں انشاءالله خداوند متعال کی توفیق شامل حال رهی تو هم عرض اور جوهر کے مقاله میں (مقاله ۱۳) اس موضوع پر گفتگو کریں گے۔
دوم: قوه اور امکان کا حامل شئ کا ماده هے نه اس کی صورت(۱) کیونکه پهلے کی صورت بعد کی صورت کے فعلیت میں آنے سے ختم هوجاتی هے اور کوئی معنا نهیں رهتا که کسی چیز کا قابل اور قبول کرنے والا اس کے مقبول اور مطلوب کے آنے سے ختم هوجائے۔
۴ – فعلیت میں آنے کے بعد اس کا امکان ختم هوجاتا هے۔ مثلا سیب کا بیچ جس میں سیب کا امکا ن هے سیب کی صورت اختیار کرنے کے بعد اس سیب کے ساتھ مربوط امکان ختم هوجاتا هے ؛ اگرچه دوسری مادی صورتوں کی نسبت امکان باقی رهتا هے۔جیسا که سیب کا بیچ سیب بن سکتا هے اور سیب بھی تجزیه کے ذریعے کوئی دوسری چیز بن سکتا هے اور آخر کار اپنی طبیعی بھاگ دوڑ میں دوباره سیب بن جائے۔ نتیجهً سیب کا بیچ بغیر واسطه کے پهلا سیب اور کم و بیش واسطه کے ذریعے دوسرا سیب یا کوئی اور چیز بن سکتا هے۔یهاں سے دو اور نظریے بھی واضح هو جاتے هیں:

(۱) تمام فلاسفرز بالاتفاق اس بات کے قائل هیں که گذشته اور آئنده ایک دوسرےسے منقطع اور نامربوط نهیں هے۔ یهی گذشته هے جو آئنده کی صورت اختیار کرتا هے ۔ لیکن جس چیز کے بارے میں فلاسفرز کے درمیان اختلاف پایا جاتا هے وه یه هے که آیا صورت اس معنا میں جس کا ارسطوئی فلاسفرز معتقد هیں ، واقع اور خارج میں وجود رکھتی هے یا نهیں؟ دوسرا یه که رونما هونے والی تغیرات اور تحولات میں قطعا گذشته بغیر تغییر کے جس طرح ماضی میں تھا اسی طرح آئنده میں باقی نهیں هے ۔ بنا براین آیا ارسطوئی صورت باقی هے یا ختم هوجاتی هے ؟ یه مطلب ایک اور مطلب کو جنم دیتا هے وه یه هے که فرض کریں صورت کو ارسطوئی معنا میں قبول کریں اور جسم کو ماده اور صورت سے مرکب مان لیں تو آیا وه چیز جو استعداد کا حامل هے جسم کا مادی جز هے یا صوری جز؟
اگر هم کهیں که جسم کے لئے پیش آنے والی جوہری تغییرات اور تبدیلیوں کے ضمن میں پهلی والی صورت ختم هوجاتی هے اور بعد کی صورت پهلے کی جگه لے لیتی هے تو یقینی طورپرکهنا پڑیگا که امکان کا حامل جسم کا مادی جز یعنی مادے کا ثابت جز هے نه صوری اور غیر ثابت۔ کیونکه امکان کا حامل وهی هے جس نے بعد کی صورت کو قبول کیا هے چنانچه متن میں آیا هے(کسی چیز کا قابل اور قبول کرنے والا اپنے مقبول اور مطلوب کے آنے سے ختم هونے کا کوئی معنا نهیں رکھتا)
اول: جسمانی ماده غیر متناهی صورتوں کا امکان رکھتا هے البته هر صورت کو خاص طریقے سے قبول کرتا هے اور واسطه کے هونے یا نه هونےاسی طرح دوری یا نزدیکی کی وجه سے قبول کرنے کی شکل و صورت مختلف هوتی هے۔دوم: ماده، امکان کی وساطت سے دوری اور نزدیکی سے متصف هوتا هے یه خود امکان کے ثابت هونے پر ایک واضح دلیل هے(۱)

البته اوپر کا بیان اس بات پر مبنی هے که اولاً:ارسطوئی نظریه جسم ماده اور صورت سےمرکب هے کو اس انداز میں قبول کریں که جسم دو خارجی جز رکھتا هے ایک مادی اور دوسرا صوری ۔
ثانیاً : اس بات کا معتقد هوجائیں که جسم میں پیش آنے والی تحولات کے دوران صوری جز ختم هوجاتا هے اور مادی جز برقرار رهتا هے؛ لیکن اگر ارسطوئی نظریے کی اساس اور بنیاد کو قبول نه کریں یا یه که اس کو بعنوان ترکیب اتحادی[۲۲] نه انضمامی[۲۳] توجیه کریں یا ان تمام کے قبول کرنے کے بعد اس بات کو قبول نه کریں که جسم میں پیش آنے والی تحولات کے دوران صوری جز کا ختم هونا ضروری هے تو مندرجه بالانظریه (امکان کا حامل شئ کا ماده هے نه صورت)باطل هوجائے گا یا ایک دوسری شکل اختیار کرے گا۔بعد کے مطالب سے اس بات کی مزید وضاحت هو گی۔
(۱) کوئی ایسی حالت نهیں هے جس میں جسمانی ماده کے تمام امکانات اس سے سلب هوجائے ۔ جسمانی ماده نه معدوم هوسکتا هے اور نه هی اس سے اس کا امکان سلب هوسکتا هے ۔ اسی بنا پر هم کهتے هیں که جسمانی ماده غیر متناهی صورتوں کے حمل کرنے کا امکان رکھتا هے۔ لیکن مادے کی نسبت تمام حالتوں میں غیر متناهی صورتیں جو امکان کا حامل هیں کسی ایک کے ساتھ بھی یکساں نسبت نهیں رکھتیں ۔بعض صورتوں کی نسبت یه امکان رهتا هے که ماده عنقریب ان صورتوں کو قبول کرے؛ یعنی ان کی نسبت مکمل آمادگی رکھتا هے اور بعض صورتوں کی نسبت یه آمادگی بعض دوسری صورتوں کے قبول کرنے کے بعد پیدا هو جاتی هے۔اگر هم استعدادوں اور امکانات کی نسبت کو بعض فعلیتوں کے ساتھ موازنه کریں تو دیکھیں گے که بعض امکانات فعلیت کےبالکل نزدیک هیں اور بعض دور۔
کیونکه دوری اور نزدیکی خارجی صفات میں سے هیں۔ لهذا ضروری هے که ان کے موصوف بھی انهی کی طرح وجود رکھتے هوں۔
اس بات کا جاننا ضروری هے که جهاں بھی وجودی نسبت اور ارتباط پیدا هوجائے چونکه کسی چیز کو دوسری چیز سے ربط دینا هے اور اس ارتباط کو برقرار کرنے کے لئے دو طرف کی ضرورت هے ۔ اگر ان کا ارتباط خارج میں هو تو دونوں اطراف کا خارج میں هونا ضروری ہے اور اگر ذهن میں هو تو دونوں اطراف کا ذهن میں هونا اور اگر فرضی هو تو فرضاهونا ضروری ہے۔

مثلا اگر هم نظفے میں موجود استعداد کو انسانیت کی فعلیت کے ساتھ موازنه کریں تو دیکھیں گے که یه استعداد فعلیت کے نزدیک هے، لیکن اگر سیب کی نسبت کو انسانیت سے موازنه کریں تو دیکھیں که فعلیت سے دور هے یعنی ممکن هے سیب انسان بن جائے لیکن فعلیتوں کے چند مراحل کو طے کرنے کے بعد انسان کے بدن کا جز بنے اور نطفه میں بدل جائے اور نطفه انسان بن جائے۔پس سیب میں موجود انسان بننے کی استعداد ایک ایسی استعداد هے جو انسانیت کی فعلیت سے بهت فاصله رکھتی هے اور یهی امکانات اور استعدادات کادوری اور نزدیکی کے ساتھ متصف هونا(باالتبع ماده کا اپنے حامل کے ساتھ متصف هونا) اس بات پر گواه هے که یه امکانات حقیقی اور واقعی پهلو رکھتی هیں؛ کیونکه دوری اور نزدیکی حقیقی اور واقعی امور میں سے هیں لهذاناچار ان کے موصوف یعنی امکانات اور استعدادات کو بھی حقیقی اور واقعی امور میں سے هونا چاهئیے۔


فرم در حال بارگذاری ...

« بررسی تاثیر موانع بهبود کارایی نیروی انسانی برمدیریت بهینه سازی ...پایان نامه :بررسی مقایسه ای پروفایل پروتئینی مایکوباکتریوم توبرکلوزیس- فایل ۲۲ »
 
مداحی های محرم